
اب بھی تجھے لگتا ہے کہ آزاد نہیں تو
ہر رنگ کا ہر طرز کا برقہ ہے تیرے پاس
ضیاء مذکور
ہر زاویے سے دیکھوں گا آتا ہوا تجھے
میں آئنے لگاؤں گا سارے مکان میں
علی مختار
جاتے ہوے کمرے کی کسی چیز کو چھو دے
میں یاد کروں گا کہ تیرے ہاتھ لگے تھے
دانش نقوی
بتا اے ابر مساوات کیوں نہیں کرتا
ہمارے گاؤں میں برسات کیوں نہیں کرتا
تحذیب حافی
تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
تحذیب حافی
کسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے
کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے
تحذیب حافی
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
علامہ اقبال
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہی
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
علامہ اقبال
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
علامہ اقبال
ہر زاویے سے دیکھوں گا آتا ہوا تجھے
میں آئنے لگاؤں گا سارے مکان میں
علی مختار
یہ سب قصے وفاؤں کے سنا کر چھوڑ دینا ہے
کہ تم نے بھی مجھے اپنا بنا کر چھوڑ دینا ہے
علی مختار
نام علی لیا تو سبھی گرہیں کھل گئیں
جاتی رہی جو تھی کبھی لکنت زبان میں
علی مختار
کوئی قصہ کوئی روداد نہیں دی اس نے
جو ہمیں چاہیے وہ یاد نہیں دی اس نے
مبشر علی
اس نے ہر بار ہمارے لیے ویرانہ چنا
کبھی بستی ہمیں آباد نہیں دی اس نے
مبشر علی
ایک لمحہ مری آنکھوں کی طرف دیکھو تم
یہ وہ پودے ہیں جنہیں کھاد نہیں دی اس نے
مبشر علی
وقتِ وحشت مجھے پہچان نہیں پاتا کوئی
پھر بتاتا ہوں فلاں شخص کا بیٹا ہوں میں
اُسامہ خالد
رونے والوں کو بڑے گھر کا بڑا فائدہ تھا
ہم تو بے بس تھے میاں سامنے ماں ہوتی تھی
اُسامہ خالد
بچپنا ختم نہ ہو پایا مرا زندگی بھر
اک بڑی عمر کی عورت سے محبت کی تھی
اُسامہ خالد
اگرچہ روز مرا صبر آزماتا ہے
مگر یہ دریا مجھے تیرنا سکھاتا ہے
رانا عامر لیاقت
ہر سانس نئی سانس ہے ہر دن ہے مرا دن
تقدیر لیے آتی ہے ہر روز نیا دن
رانا عامر لیاقت
میں جانتا ہوں محبت میں کیا نہیں کرنا
یہ وہ جگہ ہے جہاں قیس بھی پھسلتا ہے
رانا عامر لیاقت
زمیں کو عجلت ، ہوا کو فرصت ، خلا کو لکنت مِلی ہوئی ہے
ہم احتجاجاً زمیں پہ زندہ ہیں یا اجازت ملی ہوئی ہے؟؟
ہمایوں خان
آدمی شہر میں جا بستا ہے اور آخر کار
لاش آبائی علاقے میں پلٹ آتی ہے
ہمایوں خان
دل کے سب خانوں کے موسم معتدل رکھے ہوئے ہیں
اس نے اک تکنیک سے لوگوں کے دل رکھے ہوئے ہیں
ہمایوں خان
پھر اس کے بعد کچھ بھی سُنایا نہیں گیا
جس پر ہنسے تھے لوگ رُلانے کی بات تھی
نعیم اللہ انمول
کتنے عذاب جھیل کر تجھ سے نبھا رہا ہوں میں
میری جگہ پہ آ کبھی اپنی جگہ سمجھ مجھے
نعیم اللہ انمول
زندگی اب سوال مت کرنا
میں نے سیدھا جواب دینا ہے
نعیم اللہ انمول
ذرا شکوہ کیا ہے تو محبت منہ پہ دے ماری
لواب بیکار جائیں گی ہماری کوششیں ساری
زیب النساء واثق
زندگی اک مُہیب الجھن ہے
آدمی کا نصیب الجھن ہے
زیب النساء واثق
چاۓ سگرٹ نے کیا گھٹانی ہے
عمر ویسے بھی گھٹنی ہوتی ہے
زیب النساء واثق
گلی میں لوگ بھی تھے میرے اس کے دشمن لوگ
وہ سب پہ ہنستا ہوا میرے دل میں آیا تھا
ظفر اقبال
ذاکرہ تھی کوئی اور خوب رلاتی تھی ظفر
مجلسیں پڑھتی ہوئی دل کے عزا خانے میں
ظفر اقبال
خود بھی وہ چالاک ہے لیکن اگر ہمت کرو
پہلا پہلا جھوٹ ہے اس کو یقیں آ جائے گا
ظفر اقبال
تمھارے ملنے سے پہلے بہت سے لوگ ملے
میں کتنی گلیوں سے ہوکر سڑک تلک پہنچا
رحمان راجہ
بچھڑتے وقت یہ کہہ کر جدا کیا اس نے
کسی کے ساتھ بھی رہ لو گے آپ کا کیا ہے
رحمان راجہ
شب وصال تجھے خود سے ڈھانپنے والے
جدائیوں میں تمہاری قباء ہوئے کہ نہیں ؟
رحمان راجہ
اب بھی تجھے لگتا ہے کہ آزاد نہیں تو
ہر رنگ کا ہر طرز کا برقہ ہے تیرے پاس
شاعر
ہر زاویے سے دیکھوں گا آتا ہوا تجھے
میں آئنے لگاؤں گا سارے مکان میں
علی مختار
جاتے ہوے کمرے کی کسی چیز کو چھو دے
میں یاد کروں گا کہ تیرے ہاتھ لگے تھے
شاعر
وہ کہانی میں خط جلا رہی تھی
میرا کمرا دھوئیں سے بھر رہا تھا
نعمان ہاشمی
وہ سو رہی ہے تم انہیں آہٹ سے روک دو
ہم اس کے خواب میں بڑی مشکل سے آئے ہیں
نعمان ہاشمی
ریس اتنی نہیں تھی دنیا میں
وقت اچھا برا, گزر رہا تھا
نعمان ہاشمی
خط کے آغاز میں لکھا تھا کہ "اللہ حافظ "
اب بتا جان بچاتا یا میں آگے پڑھتا؟؟
محمد عرفان ارشد
اس نے اتنے کیے میرے ٹکڑے
میں کہ جتنے دلوں میں رہتا تھا
محمد عرفان ارشد
اک گھپ اندھیر کمرے میں رکھا گیا مجھے
اور 'خودکشی حرام' کا تالا لگا دیا
محمد عرفان ارشد
میں کھلی کھڑکیوں کی حیرت ہوں
قید اندر سے کھا چکی ہے مجھے
صدیق شاہد
نہ مسئلہ نہ اس کا حل ہو تم
عجیب موسموں کا حل ہو تم
صدیق شاہد
دعا کے پھول گر گئے
بکھر گئے حسین لب
صدیق شاہد
0 Comments